لیلا مجنو اور وہ
دوسری جانب بیل جا رہی تھی . فون تو ملا لیا اس نے بڑا پر اعتماد ہو کر مگر اب وہ کش مکش کا شکار ہو گیا ... نجانے وہ فون ریسیو کرتی ہے یا نہیں . سچ تو یہ ہے کہ اس روز وہ کچھ زیادہ ہی " روڈ " ہو گیا تھا .
" ہیلو !" مگر خیر گزری لیلی نے فون بند ہونے سے قبل اٹھا لیا تھا .
(ہرا ... یعنی ابھی دیر نہیں ہوئی ... شکر !) قیس کا دل بلیوں 'کتوں بلکہ گدھے کی طرح لوٹنیاں کھانے لگا . پپو نے بھی بڑے مدیرانہ بلکہ فلسفیانہ انداز سے مسکرا کر گردن اثبات میں ہلا کر اس کی حوصلہ افزائی کی .
" ہیلو لیلی !" وہ زمانے بھر کی چاہت اپنے لہجے میں بھر کر بولا " میں قیس ! کہو کیسی ہو ؟"
" اوہ تو تم ہو !" لیلی کی سرد مہرسی آواز اسکی سماعت سے ٹکرائی .
" کہو آج تمہیں میری یاد کیسے آ گئی ؟" وہ اجنبی سے لہجے میں بولی .
" یاد تو تمہاری روز آتی تھی لیلی ." وہ اپنی آواز میں جذب ضرورت سے زیادہ بھر کر بولا . " لیکن تم سے شکوہ ہے کہ میں اگر تم سے ناراض رہا اتنے دن تو تم نے تو پلٹ کر میری خبر نہ لی ."اسکی لفاظی پر سامنے براجمان پپو نے بے ساختہ اسے توصیفی نگاہوں سے دیکھا .
" پلٹ کر میں تمہاری خبر کیوں لیتی قیس ؟" وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بولی . " جبکہ میں جانتی ہوں تم مجھ سے ناراض ہو کر نہیں ' مایوس ہو کر گئے تھے وہاں سے . تمہارے چہرے پر تاسف تھا . ایک بے مایہ ' بےحیثیت لڑکی کے پیچھے اتنے دن اپنا وقت برباد کرنے کا . کیوں کیا میں نے کچھ غلط کہا ؟" وہ استہزا یہ مسکرائی . لیلی سے اس قدر صاف گوئی اور " ذہانت " کی امید نہیں تھی اسے . اسی لئے گڑبڑا کر جلدی سے وضاحت دینے لگا .
" مجھے اس قدر غلط مت سمجھو لیلی ! میں تو بس تمہارے اتنے دن تک غہریت برتنے پر تم سے خفا ہو گیا تھا ."
" نہیں قیس ... " وہ سنجیدہ اور سپاٹ لہجے میں بولی .
" میں تمہیں غلط نہیں بلکہ اب ہی تو ٹھیک سمجھی ہوں ."
" اگر ایسا ہوتا تو آج میں تمہیں خود سے کل کیوں کرتا ؟" وہ لیلی کے بے لچک انداز پر چڑ سا گیا .
" کیا معلوم کیوں کی ." وہ سپاٹ لہجے میں بولی ' " بہرحال اتنا تو میں جان گئی ہوں کہ تمہارے جیسے انسان بلا حساب کتاب کے نہیں کیا کرتے . محبت بھی نہیں ." اسکی آواز اب کے بار دھیمی پڑ گئی .